شوق کے شہر تمنا کے ٹھکانے گزرے
رات پھر ذہن سے کچھ خواب پرانے گزرے
چاند جب جھیل میں اترا تو مناظر کی طرح
مجھ کو چھوکر ترے بازو ترے شانے گزرے
جانے کس شخص کے بارے میں پریشان ہو تم
اب ہمیں خود کو بھلاتے بھی زمانے گزرے
ہم تو ہر موڑ بچھا آئے تھے دامن اپنا
جانے کس راہ بہاروں کے خزانے گزرے
بجھنے لگتا ہے کسی شمع کے مانند وجود
جب تری یاد ہواؤں کے بہانے گزرے
منظر شوق وہی ہے تو سفر کیسا تھا
ہم گزر آئے کہ جمشیدؔ زمانے گزرے

غزل
شوق کے شہر تمنا کے ٹھکانے گزرے
جمشید مسرور