شوق کے خواب پریشاں کی ہیں تفسیریں بہت
دامن دل پر ابھر آئی ہیں تصویریں بہت
دوستوں کی بزم میں کچھ سوچ کر لب سی لیے
ورنہ دامان تصور میں ہیں تقریریں بہت
زندگی تیرے لیے دفتر کہاں سے لائیے
چند بوسیدہ ورق ہیں اور تحریریں بہت
خواہشیں ہی خواہشیں ہیں حسرتیں ہی حسرتیں
دل سا دیوانہ سلامت ہے تو زنجیریں بہت
بات اتنی ہے کوئی ہو تو سزاوار صلیب
اس گئے گزرے زمانے میں بھی تعزیریں بہت
زندگی کی تلخ تر سچائیوں کا کیا علاج
یوں تو اہل مصلحت کرتے ہیں تدبیریں بہت
کاروبار شوق کی حاصل ہیں وہ پسپائیاں
جن پہ تاباںؔ ناز فرماتی ہیں تقدیریں بہت

غزل
شوق کے خواب پریشاں کی ہیں تفسیریں بہت
غلام ربانی تاباںؔ