EN हिंदी
شوق کا تقاضہ ہے شرح آرزو کیجے | شیح شیری
shauq ka taqaza hai sharh-e-arzu kije

غزل

شوق کا تقاضہ ہے شرح آرزو کیجے

غلام ربانی تاباںؔ

;

شوق کا تقاضہ ہے شرح آرزو کیجے
دل سے عہد خاموشی کیسے گفتگو کیجے

دل ہو یا گریباں ہو روز چاک ہوتے ہیں
کیا جنوں کے موسم میں کوشش رفو کیجے

عاشقی و خودداری بندگی و خود بینی
آرزو کی راہوں میں خون آرزو کیجے

داد سعئ پیہم کی کچھ تو دیجئے یعنی
تازہ تر شکستوں سے دل کو سرخ رو کیجے

پائے شوق میں کب تک راستوں کی زنجیریں
صورت صبا چلیے سیر چار سو کیجے

ہے خلوص کا مسلک دشمن اثر آخر
جو نہ ہو مقدر میں اس کی جستجو کیجے

بزم‌‌ جام و مینا میں داد تشنگی دیجے
موسم بہاراں میں حسرت نمو کیجے

کیا عجب کہ بر آئے دل کی آرزو تاباںؔ
سیر کوئے قاتل کی آپ بھی کبھو کیجے