EN हिंदी
شوق جب بھی بندگی کا رہنما ہوتا نہیں | شیح شیری
shauq jab bhi bandagi ka rahnuma hota nahin

غزل

شوق جب بھی بندگی کا رہنما ہوتا نہیں

ابن مفتی

;

شوق جب بھی بندگی کا رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

کیا سمجھ آئیں گی تم کو عشق کی باریکیاں
دل تمہارا جب تلک درد آشنا ہوتا نہیں

روح و تن کا عشق یہ قائم رہے گا دائمی
ختم بعد مرگ بھی یہ سلسلہ ہوتا نہیں

کون ہے جو جرم کرنے کو ہے شب کا منتظر
روشنی میں دن کی یارو کیا بھلا ہوتا نہیں

غالباً ہوتا مجھے بھی گھر کے گرنے کا گلہ
راہگیروں کا اگر یہ راستہ ہوتا نہیں

بد گمانی کی فضا میں کیا صفائی دیں تمہیں
اس فضا میں کوئی بھی حل مسئلہ ہوتا نہیں

اک ذرا سی بات پہ یہ منہ بنانا روٹھنا
اس طرح تو کوئی اپنوں سے خفا ہوتا نہیں

کوئی گستاخی تو کی ہے ناؤ نے گرداب سے
ورنہ یوں ساحل پہ کوئی غمزدہ ہوتا نہیں

کمرۂ تقدیر میں آتی عروس آرزو
وقت ناہنجار کا جو فیصلہ ہوتا نہیں

آنکھ سے پینے کا بھی ساقی نے مانگا ہے حساب
اس روش سے یارو کوئی مے کدہ ہوتا نہیں

مفتیؔ دیکھو مہر پلٹا ہے مری تقدیر کا
دیکھتے ہیں کس طرح سجدہ ادا ہوتا نہیں