EN हिंदी
شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے | شیح شیری
sharminda hum junun se hain ek ek tar ke

غزل

شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے

تابش دہلوی

;

شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے
کیا کیجیئے کہ دن ہیں ابھی تک بہار کے

اے عمر شوق دیکھیے ملتا ہے کیا جواب
ہم نے کسی کا نام لیا ہے پکار کے

سرگشتۂ الم ہو کہ شوریدہ سر کوئی
احساں ہیں اہل شوق پہ دیوار یار کے

اللہ رے انتظار بہاراں کی لذتیں
گزری ہے یوں خزاں بھی کہ دن ہوں بہار کے

تابشؔ سکون درد سے تسکین مرگ تک
دل ہو اگر تو لاکھ ہیں پہلو قرار کے