شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی
ندی یہ گاؤں میں تھی تو کتنی بھلی سی تھی
صحرا بھی تھا اداس سمندر بھی تھا خموش
لیکن وہی جنوں وہی دیوانگی سی تھی
پانی کے انتظار میں خالی گھڑے کے پاس
کچھ شوخ شوخ رنگ تھے کچھ دل کشی سی تھی
سوکھی ہوئی ندی کو سمندر کی تھی تلاش
اس خواہش فضول میں کیا سادگی سی تھی
ہونٹوں سے گر رہے تھے وفاؤں کے آبشار
لیکن دلوں میں گرد کدورت جمی سی تھی
دریائے غم میں شہر کا ہر فرد غرق تھا
ساحل کے آس پاس فضا ماتمی سی تھی
اس شخص سے شمیمؔ کا رشتہ عجیب تھا
کچھ دشمنی کا رنگ تھا کچھ دوستی سی تھی
غزل
شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی
شمیم فاروقی