شریک خلوت خوں بار تھوڑی ہوتا ہے
یہ شہر غم کا، نگہ دار تھوڑی ہوتا ہے
شکست و فتح کے اسباب طے شدہ تو نہیں
جو ایک بار ہو، ہر بار تھوڑی ہوتا ہے
ہے ایک وقت مقرر، وگرنہ دنیا میں
کوئی زوال پہ تیار تھوڑی ہوتا ہے
فریب دعویٰ گزاری ہے، مسئلہ کچھ اور
سبھی کو عشق کا آزار تھوڑی ہوتا ہے
لہو کی تال پہ آغاز رقص کرتے ہوئے
ادھر ادھر سے سروکار تھوڑی ہوتا ہے
الٹنا چاہے جو کار منافقت کا نقاب
یہ شہر! اس کا طرف دار تھوڑی ہوتا ہے
لکیریں کھینچتے رہنے سے بن گئی تصویر
کوئی بھی کام ہو، بے کار تھوڑی ہوتا ہے
غزل
شریک خلوت خوں بار تھوڑی ہوتا ہے
خالد معین