شرار سنگ جو اس شور و شر سے نکلے گا
جلوس لالہ و نسریں کدھر سے نکلے گا
میں جانتا ہوں کہ اس کی خبر نہ آئے گی
تناظر اس کا مگر ہر خبر سے نکلے گا
سبھی اسیر ہوئے اپنی اپنی صبحوں کے
وہ کوئی ہوگا جو قید سحر سے نکلے گا
کسی کو اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا
جو دیدہ ور ہے طلسم نظر سے نکلے گا
جلال حسن دکھا میرے ماہتاب جمال
تو روشنی ہے شبوں کے اثر سے نکلے گا
شبوں کو جاگتے ہو جس کے خواب میں اکبرؔ
وہ شاہکار کمال ہنر سے نکلے گا
غزل
شرار سنگ جو اس شور و شر سے نکلے گا
اکبر حمیدی