EN हिंदी
شراب و شعر کے سانچے میں ڈھل کے آئی ہے | شیح شیری
sharab o sher ke sanche mein Dhal ke aai hai

غزل

شراب و شعر کے سانچے میں ڈھل کے آئی ہے

شمیم کرہانی

;

شراب و شعر کے سانچے میں ڈھل کے آئی ہے
یہ شام کس کی گلی سے نکل کے آئی ہے

سمجھ رہا ہوں سحر کے فریب رنگیں کو
نیا لباس شب غم بدل کے آئی ہے

ترے قدم کی بہک ہے تری قبا کی مہک
نسیم تیرے شبستاں سے چل کے آئی ہے

وفا پہ آنچ نہ آتی اگر تمھی کہتے
زباں تک آج جو اک بات چل کے آئی ہے

سجی ہوئی ہے ستاروں سے مے کدے کی فضا
کہ رات تیرے تصور میں ڈھل کے آئی ہے

بہ احتیاط ہماری طرف اٹھی ہے نگاہ
لبوں پہ موج تبسم سنبھل کے آئی ہے

ہماری آہ ہمارے ہی دل کی آہ نہیں
نہ جانے کتنے دلوں سے نکل کے آئی ہے

سحر تک آ تو گئی شمع تابہ پروانہ
مگر حرارت غم سے پگھل کے آئی ہے

مری نگاہ تمنا کا عکس ہو نہ شمیمؔ
کسی کے رخ پہ جو سرخی مچل کے آئی ہے