شمع روشن کوئی کر دے مرے غم خانے میں
جانے کب سے یہاں بیٹھا ہوں صنم خانے میں
لذت سوزش غم جان وفا آہ نہ پوچھ
کتنی تسکین ملی آپ کو تڑپانے میں
خرمن دل پہ گری ہے تو کوئی بات نہیں
ڈر ہے کوندی نہ ہو بجلی ترے کاشانے میں
دل میں اب کوئی بھی حسرت نہیں ارمان نہیں
کچھ نہیں کچھ بھی نہیں اب مرے غم خانے میں
میں ہی آرائش افسانہ بنا آہ مگر
اب مرا نام نہیں آپ کے افسانے میں
یوں بھی اکثر تری آواز سنی ہے میں نے
سسکیاں لیتا ہو جیسے کوئی ویرانے میں
آپ لائیں تو یہ دامن مری آنکھوں کے قریب
میں بھی کچھ پیش کروں آپ کو نذرانے میں
کتنی معصوم سی پیاری سی خطا کر بیٹھے
بھول رضویؔ سے ہوئی ہے کوئی انجانے میں

غزل
شمع روشن کوئی کر دے مرے غم خانے میں
سید اعجاز احمد رضوی