EN हिंदी
شمع کی طرح پگھلتے رہئے | شیح شیری
shama ki tarah pighalte rahiye

غزل

شمع کی طرح پگھلتے رہئے

علقمہ شبلی

;

شمع کی طرح پگھلتے رہئے
اپنی ہی آگ میں جلتے رہئے

آج انساں کا مقدر ہے یہی
ہر نئے سانچے میں ڈھلتے رہئے

زندہ رہنے کی تمنا ہے اگر
اپنا چہرہ بھی بدلتے رہئے

چھاؤں کی طرح بڑھا بھی کیجے
دھوپ کی طرح نہ ڈھلتے رہئے

زندگی کی ہے علامت لغزش
کیوں بہر گام سنبھلتے رہئے

کام لیجے نہ زباں سے اپنی
خاک بس چہرے پہ ملتے رہئے

ذہن بھی شل نہ کہیں ہو جائے
وقت زاروں سے نکلتے رہئے