شمع کی طرح پگھلتے رہئے
اپنی ہی آگ میں جلتے رہئے
آج انساں کا مقدر ہے یہی
ہر نئے سانچے میں ڈھلتے رہئے
زندہ رہنے کی تمنا ہے اگر
اپنا چہرہ بھی بدلتے رہئے
چھاؤں کی طرح بڑھا بھی کیجے
دھوپ کی طرح نہ ڈھلتے رہئے
زندگی کی ہے علامت لغزش
کیوں بہر گام سنبھلتے رہئے
کام لیجے نہ زباں سے اپنی
خاک بس چہرے پہ ملتے رہئے
ذہن بھی شل نہ کہیں ہو جائے
وقت زاروں سے نکلتے رہئے
غزل
شمع کی طرح پگھلتے رہئے
علقمہ شبلی