شمع کی لو سے کھیلتے دیکھے ہیں میں نے پروانے دو
اک تو موت سے کھیل رہا ہے اک کہتا ہے جانے دو
میرے بدن پر تم برساؤ پیار کی شبنم حسن کی آگ
یوں گھل مل کر ایک نظر سے ہم پڑھ لیں افسانے دو
جن پر جان لٹا دی میں نے وہ ہی مجھ سے برہم ہیں
رونے پر پابندی ہے تو قہقہہ ایک لگانے دو
تم نے پلائی جتنی پلائی دیکھو ہیں پیاسے رند ابھی
ساقی گری سے ہاتھ نہ کھینچو سب کی دعا لو آنے دو
مے سے میں توبہ کر لوں گا یہ لو میری توبہ ہے
پہلے میرے ہاتھوں میں اپنی آنکھوں کے مے خانے دو
اس کا کام ہے کہتا رہنا اپنا کام ہے سن لینا
واعظ بھی اپنا ہے کنولؔ تم وعظ اسے فرمانے دو
غزل
شمع کی لو سے کھیلتے دیکھے ہیں میں نے پروانے دو
کنول سیالکوٹی