شمع کی لو میں کچھ دھواں سا ہے
کوئی پھر آج بد گماں سا ہے
چاک داماں ہے آج بیتابی
تیرے آنے کا کچھ گماں سا ہے
آؤ اس دل میں آن کر دیکھیں
آرزوؤں کا اک جہاں سا ہے
کہنے سننے کی بات ہو تو کہیں
حال تم پر تو سب عیاں سا ہے
ٹھہرو ٹھہرو ابھی سے صبح کہاں
یہ تو پچھلے کا کچھ سماں سا ہے
غزل
شمع کی لو میں کچھ دھواں سا ہے
جاوید کمال رامپوری