شمع امید جلاتے ہیں ہوا میں ہم لوگ
دیکھ کیا لائے گزر گاہ فنا میں ہم لوگ
زخم در زخم سماں تازہ کیا کرتے ہیں
گھول کر شوخی مقتل کو حنا میں ہم لوگ
لاکھ کوشش بھی کریں زندہ نہیں رہ سکتے
ہم خیالی کی خطرناک وبا میں ہم لوگ
سوچ لو کیا یہی جینا ہے جئے جانا ہے
باندھتے ہیں کوئی تمہید قضا میں ہم لوگ
وہ دکھائی نہیں دیتا اسے چھو لیتے ہیں
لفظ میں رنگ میں خوشبو میں صدا میں ہم لوگ
دل شکستوں کو خم زلف بتاں کافی تھا
اور الجھائے گئے خاک و خلا میں ہم لوگ
یہ کہاں آ کے نئی فصل اگانے نکلے
پچھلے وقتوں سے ملی دھوپ گھٹا میں ہم لوگ

غزل
شمع امید جلاتے ہیں ہوا میں ہم لوگ
سید رضا