شمع امید گر نہیں ہوتی
شام غم کی سحر نہیں ہوتی
ہائے نا قدریٔ جہاں افسوس
قدر اہل ہنر نہیں ہوتی
بات کرتے ہیں لوگ برسوں کی
اور پل کی خبر نہیں ہوتی
ایک ایسا بھی ہے سفر کہ جہاں
زندگی ہم سفر نہیں ہوتی
حق پسندی مزاج ہو جس کا
مفلسی اس کے گھر نہیں ہوتی
زندگی کا نہ اعتبار کرو
زندگی معتبر نہیں ہوتی
غزل
شمع امید گر نہیں ہوتی
محفوظ اثر