شخصیت اس نے چمک دار بنا رکھی ہے
ذہنیت کیا کہیں بیمار بنا رکھی ہے
اس قدر بھیڑ کہ دشوار ہے چلنا سب کا
اور اک وہ ہے کہ رفتار بنا رکھی ہے
ایک مشکل ہو تو آسان بنا لی جاے
اس نے تو زندگی دشوار بنا رکھی ہے
پاس آ جاتا ہے میں دور چلا جاؤں تو
اس نے دوری بھی لگاتار بنا رکھی ہے
ذہن اور دل میں جو ان بن ہے وہ ان بن نہ رہے
اس لیے درمیاں دیوار بنا رکھی ہے
شخص کیسا ہے وہ کیا ہے نہیں معلوم ہمیں
شہر میں اس نے مگر دھار بنا رکھی ہے
غزل
شخصیت اس نے چمک دار بنا رکھی ہے
گووند گلشن