شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے
پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے
سمندر ساحلوں سے پوچھتا ہے
تمہارا شہر کتنا جاگتا ہے
ہوا کے ہاتھ خالی ہو چکے ہیں
یہاں ہر پیڑ ننگا ہو چکا ہے
اب اس سے دوستی ممکن ہے میری
وہ اپنے جسم کے باہر کھڑا ہے
بہا کر لے گئیں موجیں گھروندا
وہ بچہ کس لیے پھر ہنس رہا ہے
غزل
شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے
سلیم انصاری