EN हिंदी
شجر جس پہ میں رہتا ہوں اسے کاٹا نہیں کرتا | شیح شیری
shajar jis pe main rahta hun use kaTa nahin karta

غزل

شجر جس پہ میں رہتا ہوں اسے کاٹا نہیں کرتا

آتش اندوری

;

شجر جس پہ میں رہتا ہوں اسے کاٹا نہیں کرتا
میں آتشؔ ملک سے سپنے میں بھی دھوکا نہیں کرتا

بناتے کیسے ہیں مٹی سے سونا مجھ کو آتا ہے
مگر میں دوستو ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا

بھلا دیتے ہیں لوگ اکثر محبت میں کئے وعدے
تبھی تو جان میں تم سے کوئی وعدا نہیں کرتا

میں اک بوڑھا شجر جس کو جواں رکھا پرندوں نے
تبھی تو میں پرندوں سے کوئی شکوہ نہیں کرتا

اڑانیں دیکھنی ہیں گر تو میری شاعری دیکھو
پرندہ ہوں میں پر ایسا کبھی دعویٰ نہیں کرتا