شجر آنگن کا جب سورج سے لرزاں ہونے لگتا تھا
کوئی سایہ مرے گھر کا نگہباں ہونے لگتا تھا
تسلی دینے لگتی تھیں مجھے جز بندیاں اس کی
میں جب اک اک ورق ہو کر پریشاں ہونے لگتا تھا
سحر جس کی مناجاتوں سے تھی راتیں تہجد سے
میں اس کی پاک صحبت میں مسلماں ہونے لگتا تھا
دعا پڑھ کر مری ماں جب مرے سینے پہ دم کرتی
عقیدت کے اندھیروں میں چراغاں ہونے لگتا تھا
پرانے پیڑ پھر تازہ پھلوں سے لدنے لگتے تھے
گئے موسم سے دل جب بھی گریزاں ہونے لگتا تھا
چنوتی دینے لگتی تھیں نئی دشواریاں مجھ کو
سفر جب زندگی کا مجھ پہ آساں ہونے لگتا تھا
بتاؤں کیا کہ کیسا با مروت شخص تھا وہ بھی
مجھے الزام دے کر خود پشیماں ہونے لگتا تھا
غزل
شجر آنگن کا جب سورج سے لرزاں ہونے لگتا تھا
نشتر خانقاہی