شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے
ہر طرف نقشے پہ کہرام بپا ہوتا ہے
روز اک باغ گزرتا ہے اسی رستے سے
روز کشکول میں اک پھول دھرا ہوتا ہے
زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے
دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے
ایک دوجے کو کبھی جان نہیں پائے ہم
میں نیا ہوتا ہوں یا خواب نیا ہوتا ہے
میں سنا آیا ہوں کل رات اسے اپنی کتھا
جانے اب یار کی دیوار کا کیا ہوتا ہے
غزل
شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے
عابد ملک