EN हिंदी
شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے | شیح شیری
shahr se jab bhi koi shahr juda hota hai

غزل

شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے

عابد ملک

;

شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے
ہر طرف نقشے پہ کہرام بپا ہوتا ہے

روز اک باغ گزرتا ہے اسی رستے سے
روز کشکول میں اک پھول دھرا ہوتا ہے

زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے
دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے

ایک دوجے کو کبھی جان نہیں پائے ہم
میں نیا ہوتا ہوں یا خواب نیا ہوتا ہے

میں سنا آیا ہوں کل رات اسے اپنی کتھا
جانے اب یار کی دیوار کا کیا ہوتا ہے