شہر کا شہر جانتا ہے مجھے
شہر کے شہر سے گلہ ہے مجھے
میرا بس ایک ہی ٹھکانا ہے
میں کہاں جاؤں گا پتا ہے مجھے
روشنی میں کہیں اگل دے گا
میرا سایہ نگل گیا ہے مجھے
بن گیا ہوں گناہ کی تصویر
کوئی چھپ چھپ کے دیکھتا ہے مجھے
راستے بھی تو سو گئے ہوں گے
اپنے بستر پہ جاگنا ہے مجھے
اس کی باتیں سمجھ رہا ہوں میں
وہ بھی لفظوں میں تولتا ہے مجھے
یہ نتیجہ ہے آگہی کا شکیلؔ
آج کل اک جنون سا ہے مجھے

غزل
شہر کا شہر جانتا ہے مجھے
شکیل گوالیاری