شہر کا شہر ہے بے زار کہاں جاؤں میں
اور تنہائی ہے دشوار کہاں جاؤں میں
لوگ مرتے ہیں سسکتے ہیں مزے لیتے ہیں
دیکھ کر سرخیٔ اخبار کہاں جاؤں میں
تو جو کہتا ہے کہ یہ خاک وطن تیری ہے
میں کہاں پر ہوں مرے یار کہاں جاؤں میں
ایک انکار پہ موقوف ہیں سارے قصے
میں کہاں صاحب کردار کہاں جاؤں میں
مجھ کو رشتوں کی تجارت کبھی منظور نہ تھی
سوچتا ہوں سر بازار کہاں جاؤں میں
پارسا خواب سبھی اس کے تصرف میں رہے
رات بھی ہو گئی بدکار کہاں جاؤں میں
کوئی منزل تری نیت سے کبھی روشن ہو
اے مرے قافلہ سالار کہاں جاؤں میں
ایک جھنڈے ہیں سبھی رنگ جدا ہیں ان کے
کون ہے کس کا علم دار کہاں جاؤں میں
جتنے منکر تھے ترے سارے فرشتے نکلے
ایک میں تیرا گنہ گار کہاں جاؤں میں
میں کنارے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں خورشیدؔ
ناؤ کے ساتھ ہے منجدھار کہاں جاؤں میں
غزل
شہر کا شہر ہے بے زار کہاں جاؤں میں
خورشید اکبر

