EN हिंदी
شہر دل سلگا تو آہوں کا دھواں چھانے لگا | شیح شیری
shahr-e-dil sulga to aahon ka dhuan chhane laga

غزل

شہر دل سلگا تو آہوں کا دھواں چھانے لگا

ستیہ نند جاوا

;

شہر دل سلگا تو آہوں کا دھواں چھانے لگا
شبنمی آنچل مگر یادوں کا لہرانے لگا

شام تنہائی میں بھی اک شخص کی یادوں کا ساتھ
رنگ اپنے غم کے ویرانوں کا سنولانے لگا

تھام کر بیٹھا رہا میں چاندنی کا نرم ہاتھ
جب اندھیرا زلف کا ماحول پر چھانے لگا

دشت تنہائی میں جی چاہا اسے آواز دوں
جب پکارا خود صدا سے اپنی ٹکرانے لگا

شام ہی سے جل اٹھے جب اس کی یادوں کے چراغ
چھاؤں میں تاروں کی شب پر بھی نکھار آنے لگا