EN हिंदी
شہپارۂ ادب ہو اگر واردات دل | شیح شیری
shahpara-e-adab ho agar wardat-e-dil

غزل

شہپارۂ ادب ہو اگر واردات دل

اقبال ماہر

;

شہپارۂ ادب ہو اگر واردات دل
نقش و نگار فکر میں ہو جائے منتقل

تھا اعتبار ضبط مگر آج ناگہاں
خود وہ تڑپ اٹھے ہیں کچھ ایسا دکھا ہے دل

لطف و کرم کی اب وہ تمنا نہیں رہی
کس دور میں ہوئی ہے تری چشم منفعل

تھی آرزو سکوں کی مگر اس قدر نہیں
اس شدت خلوص سے گھبرا گیا ہے دل

کس وقت یاد آئی ہے دور نشاط کی
ماحول بھی اداس طبیعت بھی مضمحل

مدت کے بعد آج ملے بھی تو اس طرح
کچھ ہم بھی شرمسار ہیں کچھ وہ بھی ہیں خجل