شہر کی فصیلوں پر زخم جگمگائیں گے
یہ چراغ منزل ہیں راستہ بتائیں گے
پیڑ ہم محبت کے دشت میں لگائیں گے
بے مکاں پرندوں کو دھوپ سے بچائیں گے
زہر جب بھی اگلو گے دوستی کے پردے میں
پتھروں کے لہجے میں ہم بھی گنگنائیں گے
جنگلوں کی جھرنوں کی کاغذی یہ تصویریں
گھر کے بند کمروں میں کب تلک سجائیں گے
خون بن کے رگ رگ میں دودھ ماں کا بہتا ہے
قرض یہ بھی واجب ہے کیسے ہم چکائیں گے
تھک کے لوٹ جائیں گی آندھیاں سیاست کی
جن کی لو رہے قائم وہ دئے جلائیں گے
یہ جھکی جھکی پلکیں مت اٹھائیے صاحب
جھیل جیسی آنکھوں میں لوگ ڈوب جائیں گے
غزل
شہر کی فصیلوں پر زخم جگمگائیں گے
فاروق انجم