شگن لے کر نہ کیوں گھر سے چلا میں
تمہارے شہر میں تنہا پھرا میں
اکیلا تھا کسے آواز دیتا
اترتی رات سے تنہا لڑا میں
گزرتے وقت کے پیروں میں آیا
سرکتی دھوپ کا سایا بنا میں
خلاؤں میں مجھے پھینکا گیا تھا
زمیں پہ ریزہ ریزہ ہو گیا میں
مرے ہونے نے مجھ کو مار ڈالا
نہیں تھا تو بہت محفوظ تھا میں
یہاں تو آئینے ہی آئینے ہیں
مجھے ڈھونڈو کہاں پر کھو گیا میں
غزل
شگن لے کر نہ کیوں گھر سے چلا میں
محمد علوی