شفق صفات جو پیکر دکھائی دیتا ہے
ہر اک نگاہ کا محور دکھائی دیتا ہے
ادھر کھلی کوئی کھڑکی نہ کوئی دروازہ
جہاں سے آگ کا منظر دکھائی دیتا ہے
چلو کہ نیلی فضاؤں میں بادباں کھولیں
سفر نواز سمندر دکھائی دیتا ہے
کٹے تو کیسے یہ اندھی رفاقتوں کا سفر
نہ کوئی چہرہ نہ منظر دکھائی دیتا ہے
نظر نہ آئے تو سو وہم دل میں آتے ہیں
وہ ایک شخص جو اکثر دکھائی دیتا ہے
پڑے ہیں بند سبھی زینے ان چھتوں کے زبیرؔ
جہاں جہاں سے ترا گھر دکھائی دیتا ہے

غزل
شفق صفات جو پیکر دکھائی دیتا ہے
زبیر رضوی