شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی
پرائے ہاتھ میں کوئی گلاب تھا میں بھی
نہ جانے کتنے زمانے مرے وجود میں تھے
خود اپنی ذات میں اک انقلاب تھا میں بھی
کہانیاں تو بہت تھیں مگر لکھی نہ گئیں
کسی کے ہاتھ میں سادہ کتاب تھا میں بھی
نہ جانے کیوں نظر انداز کر دیا مجھ کو
جہاں پہ تم تھے وہیں دستیاب تھا میں بھی
اندھیرے بونے کا ان کو جنون تھا جیسے
چمک میں اپنی جگہ آفتاب تھا میں بھی
تمہی نہیں تھے سمندر کے پانیوں کی طرح
کبھی سکون کبھی اضطراب تھا میں بھی
نہ پوچھو کتنا مزا گفتگو میں آیا ہے
ذہین وہ بھی تھا حاضر جواب تھا میں بھی
غزل
شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی
نصرت گوالیاری