شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں
برف کی تہہ سے کوئی چشمہ ابلتا دیکھیں
روشنی دھوپ ہوا مل کے کیا سب نے نڈھال
اب تمنا ہے کسی اندھے کنویں میں بھٹکیں
جلتے بجھتے ہوئے اس شہر پہ کیا کچھ لکھا
آج سب لکھا ہوا آنکھ پہ لا کر رکھ دیں
جانے کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر
جانے کیوں سوجھتی رہتی ہیں یہ الٹی باتیں
چھین لیں اپنی مروت کا یہ زینہ گر ہم
آج مضطرؔ اسے آکاش سے گرتا دیکھیں

غزل
شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں
فاروق مضطر