شبنم سے لکھوں اشکوں سے لکھوں میں دل کی کہانی کیسے لکھوں
پھولوں پہ لکھوں ہاتھوں پہ لکھوں ہونٹوں کی زبانی کیسے لکھوں
ہر سمت یہاں ہے ریت ابھی کس طرح چلوں تا عمر یہاں
اس ریت پہ بنتے نقش نہیں اب اپنی نشانی کیسے لکھوں
یہ الجھن تو بس الجھن ہے کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
ساحل کی تمنا کرتے ہوئے موجوں کی روانی کیسے لکھوں
کیوں ریت پہ ڈھونڈھتے پھرتے ہو اب ہاتھ نہ آئے گا یہ سراب
یہ بات حقیقت ہے لیکن میں دل کی زبانی کیسے لکھوں
ہیں دل کی باتیں یوں تو بہت کچھ کہنا ہے کچھ سننا ہے
اس کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میں اپنی کہانی کیسے لکھوں
ہر دور نیا ہے بات نئی مایوس نہیں ہے پھر بھی کرنؔ
ان بچھڑے ہوے اندھیاروں کی ہے بات پرانی کیسے لکھوں

غزل
شبنم سے لکھوں اشکوں سے لکھوں میں دل کی کہانی کیسے لکھوں
کویتا کرن