شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
یہاں کوئی بھی ہو موسم بہار باقی ہے
کچھ ایسی آج پلائی ہے چشم ساقی نے
نہ ہوش ہے نہ کوئی ہوشیار باقی ہے
پکارتا ہے جنوں ہوش میں جو آتا ہوں
ٹھہر ٹھہر ابھی فصل بہار باقی ہے
کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے
کسی شراب کی ہو کیا طلب جلیلؔ مجھے
مئے الست کا اب تک خمار باقی ہے
غزل
شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
جلیلؔ مانک پوری