EN हिंदी
شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے | شیح شیری
shabab ho ki na ho husn-e-yar baqi hai

غزل

شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے

جلیلؔ مانک پوری

;

شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
یہاں کوئی بھی ہو موسم بہار باقی ہے

کچھ ایسی آج پلائی ہے چشم ساقی نے
نہ ہوش ہے نہ کوئی ہوشیار باقی ہے

پکارتا ہے جنوں ہوش میں جو آتا ہوں
ٹھہر ٹھہر ابھی فصل بہار باقی ہے

کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے

کسی شراب کی ہو کیا طلب جلیلؔ مجھے
مئے الست کا اب تک خمار باقی ہے