شباب حسن ہے برق و شرر کی منزل ہے
یہ آزمائش قلب و نظر کی منزل ہے
سواد شمس و قمر بھی بشر کی منزل ہے
ابھی تو پرورش بال و پر کی منزل ہے
یہ مے کدہ ہے کلیسا و خانقاہ نہیں
عروج فکر و فروغ نظر کی منزل ہے
ہمیں تو راس ہی آئی فغاں کی بے اثری
مگر بتاؤ تو کوئی اثر کی منزل ہے
وہ رہبرئ جناب خضر کی منزل تھی
یہ رہنمائی فکر بشر کی منزل ہے
یہ راز پا نہ سکے صاحبان ہوش و خرد
جنوں بھی اک نگہ پردہ در کی منزل ہے
قیام شامل مشق خرام ہے تاباںؔ
سفر کا ترک بھی گویا سفر کی منزل ہے
غزل
شباب حسن ہے برق و شرر کی منزل ہے
غلام ربانی تاباںؔ