شباب ہوش کہ فی الجملہ یادگار ہوئی
جو عمر صرف تماشائے حسن یار ہوئی
حساب حسرت جرم نظارہ دل سے پوچھ
نظر تو ایک جھلک کی گناہگار ہوئی
بساط عجز میں اک آہ تھی متاع حیات
سو وہ بھی صرف ستم ہائے روزگار ہوئی
بقدر ہستی دل ہے خمار غم بدنام
خزاں خراب بہ اندازۂ بہار ہوئی
نہیں کہ آہ میں تاثیر ہی نہیں لیکن
یہ دل فگار کبھی آسماں فگار ہوئی
کرم ہے راز امید کرم کی ہستی کا
امید تیرے کرم کی امیدوار ہوئی
بلا سے ہجر میں جینے کی انتہا تو ہے
وہ ایک بار ہوئی یا ہزار بار ہوئی
ازل میں خلق ہوئی تھی جو بجلیوں کی روح
تری نگاہ مری جان بے قرار ہوئی
مرے وجود کی حجت مرے عدم کی دلیل
وہ اک نظر تھی جو شاید جگر کے پار ہوئی
بہار نذر تغافل ہوئی خزاں ٹھہری
خزاں شہید تبسم ہوئی بہار ہوئی
امید مرگ پہ فانیؔ نثار کیا کیجے
وہ زندگی کہ ہوئی بھی تو مستعار ہوئی

غزل
شباب ہوش کہ فی الجملہ یادگار ہوئی
فانی بدایونی