شباب آیا تڑپنے اور تڑپانے کا وقت آیا
اگر سچ پوچھئے بے موت مر جانے کا وقت آیا
ابھی جی بھر کے پی لو پھر نہ جانے کس پہ کیا گزرے
قریب اب شیخ جی کے وعظ فرمانے کا وقت آیا
انہیں پاس حیا ٹھہرا تو اپنے پاؤں لرزاں ہیں
ہماری جرأتوں کا ان کے شرمانے کا وقت آیا
گھٹا چھائی برسنے کو ہیں بوندیں ابر نیساں سے
نہیں پیتے جو ناداں ان کو سمجھانے کا وقت آیا
نہ ہو جائے کہیں پھر آپ سے تم تم سے تو اعظمؔ
حدود عقل سے باہر نکل جانے کا وقت آیا
غزل
شباب آیا تڑپنے اور تڑپانے کا وقت آیا
اعظم جلال آبادی