EN हिंदी
شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے | شیح شیری
shab ko pazeb ki jhankar si aa jati hai

غزل

شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے

افسر ماہ پوری

;

شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے
بیچ میں پھر کوئی دیوار سی آ جاتی ہے

ان کا انداز نظر دیکھ کے محفل میں کبھی
مجھ میں بھی جرأت اظہار سی آ جاتی ہے

اس ادا سے کبھی چلتی ہے نسیم سحری
خشک پتوں میں بھی رفتار سی آ جاتی ہے

ہم تو اس وقت سمجھتے ہیں کہ آتی ہے بہار
دشت سے جب کوئی جھنکار سی آ جاتی ہے