EN हिंदी
شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے | شیح شیری
shab KHwab mein dekha tha majnun ko kahin apne

غزل

شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے

انشاءؔ اللہ خاں

;

شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
دل سے جو کراہ اٹھی لیلیٰ کو لیا تپ نے

دیکھے ترے جلوہ کو بامہن کی جو بیٹی بھی
منہ سے وہیں کلمہ کو یکبار لگے جپنے

ہے جنس پری سا کچھ آدم تو نہیں اصلاً
اک آگ لگا دی ہے اس امرد خوش گپ نے

اس طرح کے ملنے میں کیا لطف رہا باقی
ہم اس سے لگے رکنے وہ ہم سے لگا چھپنے

ہنگام سخن سنجی آتش کی زبانی کو
شرمندہ کیا اے دل اس شوخ کے گپ شپ نے

ہر امر میں دنیا کے موجود جدھر دیکھو
آدم کو کیا حیراں شیطان کی لپ جھپ نے

گرمی سے مرے دل کی اس موسم سرما میں
یہ گنبد گردوں بھی یکبار لگا تپنے

رہ وادیٔ ایمن کی لیتا ہوں کہ گھبرایا
اس دل کی بدولت یاں مجھ کو طرف چپ نے

ہے ہم سے بھی ہو سکتا جو کچھ نہ کیا ہوگا
مجنوں سے جفا کش نے فرہاد سے سر کھپ نے

چل ہٹ بھی پرے بجلی دل بادلوں کو لے کر
دہلا ہے دیا تیری تلواروں کی شپ شپ نے

کب تک نہ کراہوں میں نالہ نہ بھروں کیوں کر
میں کیا کروں اے انشاؔ اب جی ہی لگا کھپنے