EN हिंदी
شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے | شیح شیری
shab ke KHilaf barsar-e-paikar kab hue

غزل

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے

نجیب احمد

;

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے
ہم لوگ روشنی کے طلب گار کب ہوئے

خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے
جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے

تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئے
پھر بھی یہ لوگ خواب سے بیدار کب ہوئے

تالے لگا لئے ہیں خود اپنی زبان پر
کیا بات ہے تم اتنے سمجھ دار کب ہوئے

یہ عہد اپنی روح میں عہد فراق ہے
ہم مطلع سخن پہ نمودار کب ہوئے

خلعت وصول کرتے ہوئے سر اٹھا لیا
رسوا نجیبؔ ہم سر دربار کب ہوئے