شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے
ہم لوگ روشنی کے طلب گار کب ہوئے
خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے
جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے
تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئے
پھر بھی یہ لوگ خواب سے بیدار کب ہوئے
تالے لگا لئے ہیں خود اپنی زبان پر
کیا بات ہے تم اتنے سمجھ دار کب ہوئے
یہ عہد اپنی روح میں عہد فراق ہے
ہم مطلع سخن پہ نمودار کب ہوئے
خلعت وصول کرتے ہوئے سر اٹھا لیا
رسوا نجیبؔ ہم سر دربار کب ہوئے

غزل
شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے
نجیب احمد