EN हिंदी
شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا | شیح شیری
shab ke hathon gira aur kahin rah gaya

غزل

شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا

خالد محمود ذکی

;

شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا
چاند پھر بے فلک بے زمیں رہ گیا

چلتے رہتے تو ملنے کا امکان تھا
جو جہاں رک گیا وہ وہیں رہ گیا

خود کو کھوئے ہوئے کیا کسے ڈھونڈتے
تم کہیں رہ گئے میں کہیں رہ گیا

کون رکھے حساب شب و روز جب
شب کہیں رہ گئی دن کہیں رہ گیا

کھو گیا جو بھی زاد سفر پاس تھا
خواب اوڑھے ہوئے اک یقیں رہ گیا

تم ملے ہی کہاں ملنے جیسے مجھے
میں جہاں تھا وہیں کا وہیں رہ گیا

سب گزرتا گیا سب گزرنے دیا
پھر بھی کیا کیا نہ دل کے قریں رہ گیا

میں اٹھائے ہوئے یہ بدن چل پڑا
دل بھی راضی تھا پھر بھی وہیں رہ گیا

بعد مدت کے اب سوچنا بھی ہے کیا
پاس کیا رہ گیا کیا نہیں رہ گیا