EN हिंदी
شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں | شیح شیری
shab josh-e-girya tha mujhe yaad sharab mein

غزل

شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں

مفتی صدرالدین آزردہ

;

شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں
تھا غرق میں تصور آتش سے آب میں

یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آوے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں

یا رب یہ کس نے چہرے سے الٹا نقاب جو
سو رخنے اب نکلنے لگے آفتاب میں

کیا عقل محتسب کی کہ لایا ہے کھینچ کر
سودا زدوں کو محکمۂ احتساب میں

ہم جان و دل کو دے چکے موہوم امید پر
اب ہو سو ہو ڈبو دے یہ کشتی شراب میں

کچھ بھی لگی نہ رکھی ڈبو دی رہی سہی
دل کو نہ ڈالنا تھا سوال و جواب میں

الفت میں ان کی اب تو ہے جانوں کی پڑ گئی
دل کس شمار میں ہے جگر کس حساب میں

تھے جستجو میں روز ازل جائے درد کی
آیا پسند دل مرا اس انتخاب میں