شب جو رخ پر خال سے وہ برقعہ کو اتارے سوتے ہیں
چشم قمر لگتی ہی نہیں کیا بلکہ نہ تارے سوتے ہیں
بند کیے آنکھیں وہ اپنی نشے کے مارے سوتے ہیں
وقت یہی ہے گھات کا اے دل دیکھ چکارے سوتے ہیں
ہجر میں تیرے شمس و قمر کی آنکھ لگے کیا لیل و نہار
چرخ کے کب گہوارے میں یہ عشق کے مارے سوتے ہیں
آیا تھا وہ ماہ جبیں اقرار پہ آدھی رات کو آہ
یارو کیوں کر جاگتے رہیے بخت ہمارے سوتے ہیں
فرصت پا کر ہاتھ لگایا پاؤں کو ان کے جب میں نے
کہنے لگے چل دور سرک مت ہاتھ لگا رے سوتے ہیں
بستر گل کی بالش پر کی ان کو نہیں کچھ حاجت ہے
سر کو ترے زانو پر رکھ جو شب کو پیارے سوتے ہیں
کیا جانے اس خواب عدم میں لذت ہے جو اہل قبور
اپنے اپنے گھر میں ہاں یوں پاؤں پسارے سوتے ہیں
اک مدت میں پھرتے پھرتے منہ سے سنی درباں کے یہ بات
شکر خدا کا اپنے وہ گھر میں آج تو پیارے سوتے ہیں
چوری سے ہم شب کو پہنچے پاؤں تلک جوں دزد حنا
لیکن چوکیدار کئی نزدیک تمہارے سوتے ہیں
اس کے قریب چشم کہاں ہے خال دلا ٹک غور سے دیکھ
کیفیت سے مست پڑے دریا کے کنارے سوتے ہیں
وہ تو کبھی بیداری میں جز خواب نہیں ملتے یارو
کوئی ہمیں ہرگز نہ اٹھانا ہجر کے مارے سوتے ہیں
مانگ میں تیری کیوں نہ کریں عشاق کے دل آرام بھلا
ہیں یہ مسافر رستے میں منزل کے مارے سوتے ہیں
چشم ملاقات ان سے رکھیے تو ہی بتا کس وجہ نصیرؔ
غیر کی جانب ابرو سے وہ کر کے اشارے سوتے ہیں
غزل
شب جو رخ پر خال سے وہ برقعہ کو اتارے سوتے ہیں
شاہ نصیر