شب گزیدہ کے گھر نہیں آتی
خواب میں بھی سحر نہیں آتی
کیا سنیں دیس کی سنائیں کیا
کوئی اچھی خبر نہیں آتی
آئینہ دوسروں کی جانب ہے
اپنی صورت نظر نہیں آتی
آپ منہ میں زبان رکھتے ہیں
بات کرنی مگر نہیں آتی
درس دیتے ہیں وہ محبت کا
جن کو زیر و زبر نہیں آتی
میری قسمت ہے یا پچھل پیری
لوٹ جاتی ہے گھر نہیں آتی
بن ترے کچھ نظر نہیں آتا
تجھ کو عطیہؔ نظر نہیں آتی
غزل
شب گزیدہ کے گھر نہیں آتی
عطیہ نیازی