شب سیاہ سے جو استفادہ کرتے ہیں
وہی چراغوں کا ماتم زیادہ کرتے ہیں
دلوں کا درد کہاں جام میں اترتا ہے
حریف وقت کو ہم غرق بادہ کرتے ہیں
پرانی تلخیاں دامن بہت پکڑتی ہیں
کبھی نیا جو کوئی ہم ارادہ کرتے ہیں
پڑی تھی دل کی زمیں جانے کب سے بے مصرف
اب اس میں یادوں کے بت ایستادہ کرتے ہیں
عجیب دور ہے یہ جس میں سارے دانشور
دلوں کو تنگ مکاں کو کشادہ کرتے ہیں
یہ آسمان وطن کیوں ردا ہماری ہے
ہم اس زمین کو کیسے لبادہ کرتے ہیں
غزل
شب سیاہ سے جو استفادہ کرتے ہیں
اسعد بدایونی