EN हिंदी
شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا | شیح شیری
shab-e-hijran thi main tha aur tanhai ka aalam tha

غزل

شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا

مصحفی غلام ہمدانی

;

شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
غرض اس شب عجب ہی بے سر و پائی کا عالم تھا

گریباں غنچۂ گل نے کیا گلشن میں سو ٹکڑے
کہ ہر فندق پر اس کے طرفہ رعنائی کا عالم تھا

نہال خشک ہوں میں اب تو یارو کیا ہوا یعنی
کبھی اس بید مجنوں پر بھی شیدائی کا عالم تھا

لکھے گر جا و بے جا شعر میں نے ڈر نہیں اس کا
کہ میں یاں تھا سفر میں مجھ پہ بے جائی کا عالم تھا

حنا بھی تو لگا دیکھی پہ وہ عالم کہاں ہے اب
ہمارے خوں سے جو ہاتھوں پہ زیبائی کا عالم تھا

چلا جب شہر سے مجنوں طرف صحرا کی یوں بولا
نصیب اپنے تو اس عالم میں رسوائی کا عالم تھا

یہ عالم ہم نے دیکھا مصحفیؔ ہاں اپنی آنکھوں سے
کہ بندہ جی سے اس معشوق ہرجائی کا عالم تھا