EN हिंदी
شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی | شیح شیری
shab-e-hijr sahra-e-zulmat nikli

غزل

شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی

مصحفی غلام ہمدانی

;

شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی

مجھے گالیاں دے گیا وہ صریحاً
مرے منہ سے ہرگز نہ کچھ بات نکلی

ہوا وادیٔ قتل صحرائے محشر
مری نعش جب روز میقات نکلی

کمی کر گیا ناز پنہاں کا خنجر
نہ جاں تیرے بسمل کی ہیہات نکلی

تو اے مصحفیؔ اب تو گرم سخن ہو
شب آئیں دراز اور برسات نکلی