EN हिंदी
شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے | شیح شیری
shab-e-firaq na kaTe kaTe hai kya kije

غزل

شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے

ولی اللہ محب

;

شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے
نہ صبح ہوئے ہے نہ پو پھٹے ہے کیا کیجے

صفا تھا عکس رخ اس کے سے دل کا آئینہ
اب اس پہ زنگ کدورت اٹے ہے کیا کیجے

رحیم و رام کی سمرن ہے شیخ و ہندو کو
دل اس کے نام کی رٹنا رٹے ہے کیا کیجے

بسان ہر مژہ پر پارۂ دل مجروح
ہر ایک پل نہ شمردہ بٹے ہے کیا کیجے

پئے تھا رات تو کل غیر پاس یار شراب
اور آج قسمیں ہی کھا کھا نٹے ہے کیا کیجے

یہ جوں جوں وعدے کے دن رات پڑتے جاتے ہیں
گھڑی گھڑی میں مرا جی کٹے ہے کیا کیجے

رقیب جم کے یہ بیٹھا کہ ہم اٹھے ناچار
یہ پتھر اب نہ ہٹائے ہٹے ہے کیا کیجے

جگر کے ٹکڑوں سے جب تک کہ گود بھر لے آئے
یہ طفل اشک تو رو رو ہٹے ہے کیا کیجے

یہ دخت رز کوئی ایسے لٹی ملے ہے محبؔ
دل اس کی تاک میں اپنا لٹے ہے کیا کیجے