شب فراق کا مارا ہوں دل گرفتہ ہوں
چراغ تیرہ شبی ہوں میں جلتا رہتا ہوں
کبھی کا مار دیا ہوتا زندگی نے مجھے
یہ شکر ہے کہ میں زندہ دلی سے زندہ ہوں
کوئی فریب تمنا نہ جلوہ اور نہ خیال
دیار عشق میں تنہا تھا اور تنہا ہوں
زمانہ میری ہنسی کو خوشی سمجھتا ہے
میں مسکرا کے جو خود کو فریب دیتا ہوں
نہ سن سکو گے اب اشعار میرے اے لوگو
قلم کو خوں میں ڈبو کر میں شعر کہتا ہوں
یہ انقلاب ہے کل میں نے رہ دکھائی تھی
اور آج راہ میں خود ہی بھٹکتا پھرتا ہوں
جدیدیت کا ہوں شیدا روایتوں کا امیں
میں امتزاج میں دونوں کے شعر کہتا ہوں
جسے نہ دوستی محبوب اور نہ پاس وفا
اس آدمی سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں
شفیقؔ مجھ کو نہ الزام دیں ازل سے ہی
خطا سرشت ہے میری خطا کا پتلا ہوں
غزل
شب فراق کا مارا ہوں دل گرفتہ ہوں
شفیق دہلوی