EN हिंदी
شب فراق کا دھوکا کبھی سحر کا فریب | شیح شیری
shab-e-firaq ka dhoka kabhi sahar ka fareb

غزل

شب فراق کا دھوکا کبھی سحر کا فریب

مسعود میکش مراد آبادی

;

شب فراق کا دھوکا کبھی سحر کا فریب
کمال ذوق تماشہ ہے یا نظر کا فریب

مجھے حیات کی سرحد سے دور لے آیا
گرفت ہوش سے پہلے تری نظر کا فریب

غبار راہ میں گم ہو گئے رہین سفر
مگر نہ ٹوٹ سکا پھر بھی راہبر کا فریب

مری حیات تری زلف کی پناہ میں ہے
شکست دے نہ سکے گا مجھے سحر کا فریب

تری نظر کا کرشمہ نہیں تو پھر کیا ہے
تغیرات زمانہ یہ بحر و بر کا فریب

تمہاری انجمن ناز تک مجھے لایا
مری نگہ کا تقاضا مری نظر کا فریب

حدود کوچۂ جاناں کے ماسوا میکشؔ
ہر ایک گام پہ ملتا ہے خیر و شر کا فریب