EN हिंदी
شب بے ماہ بھی اس کی نہیں کالی ہوگی | شیح شیری
shab-e-be-mah bhi uski nahin kali hogi

غزل

شب بے ماہ بھی اس کی نہیں کالی ہوگی

منّان بجنوری

;

شب بے ماہ بھی اس کی نہیں کالی ہوگی
جس نے کترن بھی ترے نور کی پا لی ہوگی

لوگ کہتے ہیں کوئی تجھ سا حسیں اور بھی ہے
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات خیالی ہوگی

اس نے بھی مجھ کو یہی سوچ کے ڈھونڈا نہ کبھی
میں نے اب تک تو نئی دنیا بسا لی ہوگی

جب سنا ایک اندھیرا سا ہے گھر میں میرے
دکھ سے بولے مری تصویر ہٹا لی ہوگی

ہیں پشیماں وہ معطل تجھے کر کے اے دل
غم نہ کر پھر اسی منصب پہ بحالی ہوگی

آٹھ دس سال میں منانؔ یہ اعجاز سخن
تم نے کچھ عمر سخن اپنی چھپا لی ہو ہوگی