EN हिंदी
شب ڈھلی اتر گیا پھر عشق کا نشہ مرا | شیح شیری
shab Dhali utar gaya phir ishq ka nasha mera

غزل

شب ڈھلی اتر گیا پھر عشق کا نشہ مرا

پوجا بھاٹیا

;

شب ڈھلی اتر گیا پھر عشق کا نشہ مرا
کیا ہوا وہ دیر تک اسی کو ڈھونڈھنا مرا

الجھنیں تمام عمر ذات میں رہیں مرے
کاش میرے ہاتھ پھر لگے کوئی سرا مرا

مجھ سے وہ سکون مانگتا ہے یہ بھی دن ہے ایک
جو تمام عمر ہی بنا رہا خدا مرا

زندگی جو جی گئی اداسیوں سے تھی بھری
یہ پیرہن بھی تھا غموں کے تھان سے سلا مرا

مرثیہ جو پڑھ سکا نہ لاش پر مری ابھی
وہ گا رہا ہے محفلوں میں بن کے آشنا مرا

سانس لوں تو یوں لگے کوئی گناہ کر دیا
اب تو کوئی فیصلہ سنا ہی دے خدا مرا