شب ڈھلے گنبد اسرار میں آ جاتا ہے
ایک سایہ در و دیوار میں آ جاتا ہے
میں ابھی ایک حوالے سے اسے دیکھتا ہوں
دفعتاً وہ نئے کردار میں آ جاتا ہے
یوں شب ہجر شب وصل میں ڈھل جاتی ہے
کوئی مجھ سا مری گفتار میں آ جاتا ہے
مجھ سا دیوانہ کوئی ہے جو ترے نام کے ساتھ
رقص کرتا ہوا بازار میں آ جاتا ہے
جب وہ کرتا ہے نئے ڈھب سے مری بات کو رد
لطف کچھ اور بھی گفتار میں آ جاتا ہے
دیکھنا اس کو بھی پڑتا ہے میاں دنیا میں
سامنے جو یونہی بے کار میں آ جاتا ہے
ایک دن قیس سے جا ملتا ہے وحشت کے طفیل
جو بھی اس دشت سخن زار میں آ جاتا ہے
میں کبھی خود کو اگر ڈھونڈھنا چاہوں احمدؔ
دوسرا معرض اظہار میں آ جاتا ہے

غزل
شب ڈھلے گنبد اسرار میں آ جاتا ہے
احمد رضوان